"Some wounds don't bleed, they echo—through silence, glances, and unspoken regrets.
Tonight wasn't about words, it was about all that was left unsaid.
And in the quiet between them, love waited… bruised, but breathing."
مشعل نے نیند میں ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا اور بنا دیکھے ہی ریسیو کر لیا
" اتنی رات کو کس نے ڈسٹرب کیا ہے؟"
دوسری طرف ہلکی سی ہنسی سنائی دی
" تمہاری نیند ڈسٹرب کرنے والا تمہارا ہونے والا شوہر ہے"
مشعل نے آنکھیں کھولیں اور حیران ہو کر اٹھی بیٹھی
"زریاب تمہیں پتہ ہے رات کے دو بج رہے ہیں"
"ہاں! اسی لیے تو کال کی، تمہیں یاد دلانے کے لیے کہ اب تم سے بنا بات کیے نیند نہیں آئے گی"
ذریاب نے مذاق کیا
" شادی سے پہلے ہی اتنی عادت ڈالنے لگے ہو"
مشعل نے تانا مارا
"عادت نہیں حق"
ذریاب نے اسی کی ٹون میں کہا
"اگر تم نے مجھے ابھی سونے نہیں دیا تو شادی سے پہلے ہی تمہاری شکایت کردوں گی"
مشل نے تکیے پر سر ٹکایا اور آنکھیں بند کرتی ہوئی بولی
"شکایت؟ کس سے ؟تمہاری امی سے ؟ وہ تو مجھے تم سے بھی زیادہ پسند کرتی ہیں"
ذریاب نے ہنس کر کہا
"ہاں مجھے لگتا ہے شادی کے بعد میں آؤٹ سائیڈ ہو جاؤں گی"
مشعل نے آنکھیں گھمائی
" میں صرف تمہارا ہوں اور تم صرف میری تم آؤٹ سائیڈ کیسے ہو سکتی ہو "
زریاب نے دھیرے سے کہا
"تمہاری باتیں کافی خطرناک ہیں"
اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی تھی جسے چھپانے کے لیے اس نے کہا
"اور تم ان کے بنا رہ نہیں سکو گی"
ذریاب نے شیطانی لہجے میں کہا
" تم بہت تیز ہو زریاب"
مشعل نے کھڑکی سے پردہ ہٹایا اور چاند کو دیکھتے ہوئے بولی
"اور تم بہت کیوٹ ہو MRS مشعل زریاب "
زریاب نے شرارت سے کہا
"ایکسکیوز می مسز مشل زریاب بننے میں ابھی ٹائم ہے"
" میرے لیے تو تم پہلے دن سے ہی میری ہو"
ذریاب نے آرام سے کہا مشعل کا دل ایک پل کے لیے تیز دھڑکا پھر اس نے بات پلٹنے کے لیے کہا
" تم نے مجھے صرف اس لیے جگایا"
" نہیں میں صرف چیک کر رہا تھا کہ تم مجھے مس کرتی ہو یا نہیں "
مشعل کی آنکھیں چھوٹی ہوئی
" میں سو رہی تھی مس کرنے کا ٹائم بھی نہیں ملا "
"شادی کے بعد دیکھنا ، تم بنا بات کیے نیند بھی نہیں لو گی"
مشعل نے جلدی سے فون کا اسپیکر آف کیا پھر اپنے دہکتے ہوئے گالوں پر ہاتھ رکھے
"اب سو جاؤ ورنہ کل تمہاری آنکھوں کے نیچے ڈارک سرکلز ہوں گے "
اسپیکر ان کرنے کے بعد اس نے نارمل لہجے میں کہا
"تمہیں تو تب بھی میں ہینڈسم ہی لگوں گا"
ذریاب نے فلرٹ کرتے ہوئے کہا
"بہت اوور کانفیڈنس نہیں ہے تم میں؟"
مشعل نے آنکھیں گھمائیں
" اچھا چھوڑو میں دراصل رشتہ پکا ہونے کی مبارک باد دینے کے لیے کال کر رہا تھا "
ذریاب ہنس دیا تھا
" مبارک باد؟ مطلب تمہیں اب یاد آیا "
مشعل نے حیران ہو کر کہا
"ہاں سوچا سپیشل طریقے سے ہی دینی چاہیے صبح سب کے سامنے تو نہیں دے سکتا تھا نا"
ذریاب نے آرام سے کہا
"تو کیا اسپیشل طریقہ صرف مجھے نیند سے جگانا تھا "
مشعل نے ہلکا سا مسکراتے ہوئے کہا
"اف کورس! کیونکہ میں چاہتا تھا کہ میری ہونے والی بیوی سب سے پہلے مجھے یاد کرے"
زریاب نے مذاق میں کہا
" تم عجیب ہو ذریاب"
مشعل نے شرماتے ہوئے کہا
"اور تم میری عجیب بیوی بننے والی ہو"
ذریاب نے گہری ہلکی آواز میں کہا مشعل نے ہنستے ہوئے فون رکھ دیا لیکن اس کا دل اب تک ذریاب کی باتوں میں الجھا ہوا تھا دوسری طرف ذریاب نے مزہ لیتے ہوئے آنکھیں بند کی اور مسکرا دیا اور یہی وہ لمحہ تھا جہاں آتش اپنے کمرے میں بیٹھا تھا اس کے چہرے پر غم اور پریشانی چھائی ہوئی تھی آنکھوں کو بند کرتے ہوئے اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا یہ کیا کر دیا میں نے مجھے اتنی جلدی اس سے شادی کے لیے ہاں نہیں کرنی چاہیے تھی اس کا دماغ تیز چلنے لگا آخر وہ ایسا کیا کرے کہ یہ شادی رک جائے یک دم اس کا دماغ روشن ہوا ہاں اگر مہر خود اس شادی سے منع کر دے تو بات بن سکتی ہے اگر میں امی کو ہاں کرنے سے پہلے مہر سے بات کر لیتا تو یہ نوبت ہی نہ آتی مجھے پورا یقین ہے مہر بھی کافی پریشان ہو رہی ہوگی ظاہر سی بات ہے مجھ سے شادی کر کے وہ کیوں بھری جوانی میں مرنا چاہے گی اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ پھیلی تھی بے وقوف لڑکی دل ہی دل میں اسے کہا جانے والا القاب پھر سے کہا اب مجھے جلد از جلد مہر سے بات کرنی چاہیے میری نہ سہی اس کی بات تو ہر کوئی سن سکتا ہے مجھے لگتا ہے شاید وہ میرا ہی انتظار کر رہی ہوگی کہ میں ہی کچھ کر سکتا ہوں اب اس بے وقوف لڑکی کو کیا پتہ کہ صرف لڑکی ہی نہیں لڑکے کی بھی رضا کو اہمیت نہیں دی جا رہی یہاں پر وہ چل کر کھڑکی کے پاس گیا تھا اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی پرسکون سی، جیسے آدھی ٹینشن سے چھٹکارا حاصل کر چکا ہو گنگناتے ہوئے اس نے شرٹ اتار کر وارڈ کے ساتھ لگے سٹینڈ پر لٹکائی پھر بیڈ پر آ کر نیم دراز ہو گیا بازو آنکھوں پر رکھے اس نے سکون سے آنکھیں بند کرلیں یہ جانے بغیر کی تقدیر اس کے منصوبے پر ہنسی تھی اور پھر یہی وہ لمحہ تھا جہاں مہر اپنے کمرے میں موجود بیڈ پر لیٹے سے اٹھ بیٹھی اس کی آنکھوں میں دور دور تک نیند کا نام و نشان تک نہیں تھا وہ چل کر کھڑکی کے پاس گئی تھی اس کے ذہن میں صبح کے مناظر چل رہے تھے اس نے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی کو دیکھا پھر چل کر سنگھار میز کے سامنے جا کھڑی ہوئی اس کے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ تھی جس سے وہ خود بھی انجان تھی اس کے دماغ میں بس ایک ہی فقرہ گونج رہا تھا
"تم بھی بھائی سے محبت کرتی ہو"
کیا وہ اس سے محبت کرتا ہے جو مشعل نے ایسی بات کہی تھی مگر کب سے؟ خود پر نظر جمائے وہ سوچنے لگی ظاہر سی بات ہے مہر وہ تم سے محبت کرتا ہے اسی لیے تو مانا ہے ورنہ خالہ کیوں رشتہ لینے آتی برش رکھ کر اس نے اپنا ہاتھ آنکھوں کے سامنے کیا ہیرے کی انگوٹھی جگمگ کر رہی تھی انگوٹھی سے نظریں ہٹا کر اس نے دوبارہ آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھا اور چونک گئی اس کے گال سرخ ہو رہے تھے اف مہر کیا ہو گیا ہے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا تمہارے ساتھ ابھی کیوں اس کو سوچ کر بلش کر رہی ہو اس نے ہاتھ چہرے پر رکھ کر خود کو سنبھالا پھر بھاگ کر بستر میں گھس گئی کیونکہ اب کی بار اس کے رخسار نہیں وہ پوری ہی گلابی ہو گئی تھی
☆☆☆
شاپنگ مال کے کیفے ٹیریا میں خاصی گہما گہمی تھی۔
ایک ٹیبل پر وہ تینوں بیٹھے تھے۔ ویٹر ان کے سامنے کافی رکھ کر واپس چلا گیا۔
آتش نے لاپرواہی سے کافی کا مگ اٹھا لیا۔
امان نے پہلے اسے، پھر زریاب کو دیکھا جو کھڑکی کے پار دیکھ رہا تھا۔ اس کے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ تھی، وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر لگ رہا تھا۔
"او مجنوں کی اولاد، باہر آ جا اپنی دنیا سے!"
امان نے اس کے چہرے کے سامنے ہاتھ لہرایا۔
"کیوں بے؟ تجھے کیا مسئلہ ہے مجھ سے؟"
زریاب نے پرسکون لہجے میں دوسرا مگ اٹھاتے ہوئے کہا۔
"مجھے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟ میں تو بس تیرے ہونے والے سالے کے بارے میں سوچ رہا تھا… بیچارے کی قسمت ہی پھوٹی ہے!"
امان نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے ہنسی دبائی۔
آتش نے خونی نظروں سے اسے گھورا، جب کہ زریاب نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
"کیا مطلب؟ کہنا کیا چاہتے ہو؟"
"کچھ نہیں... وہ دیکھ، بھابھی آ رہی ہیں۔"
فی الحال وہ مہر کی برائی کر کے زریاب سے پٹنا نہیں چاہتا تھا۔
زریاب نے گردن اٹھا کر اس دشمنِ جاں کو دیکھا۔
"بھائی، مجھے آپ کا کریڈٹ کارڈ چاہیے،"
مشعل آتش سے مخاطب ہوئی۔
"جو تم گھر سے لائی تھی، وہ کہاں گیا؟"
آتش تھوڑا حیران ہوا۔
"وہ ختم ہو گیا۔"
مشعل نے لاپروائی سے جواب دیا۔
آتش نے سر جھٹک کر اپنا کریڈٹ کارڈ نکالا اور اس کی طرف بڑھا دیا۔
"اتنی شاپنگ؟"
امان بولے بغیر نہ رہ سکا۔
"یہ لے، تو بھی جا کر کچھ خرید لے۔"
زریاب نے اپنا کریڈٹ کارڈ نکال کر امان کی طرف بڑھایا،
"میری طرف سے تحفہ سمجھ لینا۔"
امان نے کارڈ پکڑنا چاہا، تبھی زریاب نے فوراً ہاتھ پیچھے کر لیا۔
"نہ بیٹا، میں تیرے جیسا سیدھا نہیں ہوں جو اپنا کارڈ تیرے حوالے کر دوں!"
پھر ایک نظر آتش پر ڈالی، جو ان کی طرف متوجہ ہی نہیں تھا۔
"میں نے ابھی شاپنگ کرنی ہے... اپنی شادی کی!"
آخری الفاظ پر زور دیتے ہوئے زریاب کھڑا ہوا، اور آنکھوں سے امان کو اشارہ کیا۔
"ٹھیک ہے، میں تیری مدد کر دیتا ہوں۔"
امان بھی کھڑا ہو گیا۔
"آ جا ہٹلر! مل کے شاپنگ کرتے ہیں۔"
آتش نے بغیر دیکھے ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا، جیسے کہہ رہا ہو، "تم دونوں دفع ہو جاؤ، مجھے نہیں جانا۔"
وہ دونوں کندھے اچکا کر تیزی سے نکل گئے۔
جب وہ چلے گئے، تو آتش سیدھا ہو کر بیٹھا۔
پھر چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ رش اب اور بھی زیادہ ہو چکا تھا۔ وہ تیزی سے اٹھا اور کیفے سے باہر نکل آیا۔
مال میں پہنچ کر اس نے ہر طرف دیکھا۔
اوہ شکر، اس کا کوئی رشتہ دار وہاں موجود نہ تھا، سوائے "اس" کے۔
چہرے پر سخت تاثرات لیے وہ اس کی طرف بڑھا۔
ریک سے نیل پالش اٹھا کر مہر نے دیکھا، پھر دوسری۔
"عینی، یہ۔۔۔"
اس نے اپنے ساتھ کھڑی عینی سے کچھ پوچھنا چاہا، مگر وہ تو وہاں تھی ہی نہیں۔
"یہ کہاں چلی گئی؟"
حیرت سے کہتے ہوئے اس نے دائیں طرف دیکھا، اور اس کی روح فنا ہو گئی—آتش سپاٹ چہرہ لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔
"مہر، میری بات سنو،"
آنکھوں میں برہمی لیے اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
مہر نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
"جی، بولیے؟"
آتش نے گہری سانس لی، پھر بھاری آواز میں، سرگوشی کے انداز میں بولا:
"گھر جا کر سب کو کہو کہ تم یہ شادی نہیں کرنا چاہتیں۔ سمجھیں؟"
رک کر اس نے مہر کی پھٹی ہوئی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔
وہ حیرت اور بے یقینی سے اسے دیکھتی رہ گئی۔
"کیا مطلب ہے اس بات کا؟ آخر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟"
اب کے لہجے میں کپکپاہٹ تھی۔
آتش نے اپنا ماتھا مسلا، پھر دوبارہ انگلی اٹھا کر اسے گویا یاد دہانی کروائی:
"میرے دل میں تمہارے لیے کچھ بھی نہیں ہے، ایک ذرّہ تک نہیں۔"
اس نے انگشت شہادت اور انگوٹھے سے ایک ننھا سا خلا بنا کر دکھایا۔
"اور نہ ہی میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میں تو حیران ہوں کہ تم نے میرے لیے ہاں کیسے کر دی، حالانکہ تم جانتی ہو کہ میں تم سے نفرت کرتا ہوں۔"
"میں جاننا چاہتی ہوں، کیوں؟"
مہر نے بازو باندھ لیے، چہرے پر برہمی تھی۔
"آپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں، آپ شادی نہیں کرنا چاہتے، اور آپ کو مجھ میں دلچسپی بھی نہیں۔"
اس نے اسی انداز میں انگلیوں سے خلا بنایا، پھر ایک قدم آگے آئی۔
"سب کچھ آپ ہی تو کر رہے تھے، پھر انکار کیوں نہیں کیا؟"
آتش نے غصے سے اسے گھورا۔
"تمہیں کیا لگتا ہے میں نے انکار نہیں کیا تھا؟ پہلی فرصت میں ہی منع کر دیا تھا، مگر امی نے کہا کہ اگر میں تم سے شادی نہیں کرتا، تو وہ مشعل کی شادی ذریاب سے نہیں ہونے دیں گی۔"
"میں نے لاکھ سمجھایا، مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔
اسی لیے اب تم جا کر انکار کرو گی، اور آج ہی کرو گی۔"
مہر نے گہری سانس لی، خود کو سنبھالا۔
"میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی۔ مسئلہ آپ کو ہے، تو خود انکار کریں۔ میں کیوں بری بنوں؟"
آتش نے درشتی سے اس کی کہنی پکڑی، وہ بوکھلا گئی۔
"پچھتاؤ گی، مہر، مجھ سے شادی کر کے بہت پچھتاؤ گی!"
جھٹکے سے اس کی کہنی چھوڑ کر قہر بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
"تمہاری زندگی عذاب بنا دوں گا۔
اب بھی وقت ہے، فیصلہ بدل لو، ورنہ… میرے ساتھ جڑو گی، تو ہر دن ایک سزا بنے گا!"
زہر سے بھرپور لہجے میں وارن کر کے وہ تیزی سے وہاں سے چلا گیا۔
مہر نے جلدی سے آنسو صاف کیے۔
رات کے مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے، جب امی ابو نے رشتہ پکا ہونے کے بعد اسے بلایا تھا۔
امی ابو کے چہروں پر خوشی تھی، اعتماد تھا۔
"مجھے اپنی بیٹی پر پورا یقین ہے، رضا، کہ وہ مجھے اور میری بہن کو مایوس نہیں کرے گی۔"
طیبہ نے مہر کو گلے لگا کر کہا تھا، اور ساتھ بیٹھے رضا صاحب نے مسکرا کر اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا تھا۔
مہر بھی مسکرا دی تھی۔
ہاں، وہ کیسے انکار کرتی جب سب بڑے خوش تھے؟
یہ جانتے ہوئے بھی کہ آتش اسے پسند نہیں کرتا۔
لیکن وہ تو کرتی تھی نا۔
محبت کی ضد تھی، یا یقین؟ وہ خود نہیں جانتی تھی۔
مگر اب اس ضد کی قیمت اس کی آنکھوں میں آنسو بن کر اتر رہی تھی۔
اور اب؟
اب وہ کہہ گیا تھا کہ وہ اس سے نفرت کرتا ہے۔
لیکن کیوں؟
یہ وہ جاننا چاہتی تھی۔
اور تھوڑی دیر پہلے پوچھا بھی تھا۔
مگر شاید... وہ سمجھ نہیں پایا۔
دور جاتے آتش کی پشت کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر اس کی آنکھیں دھندلا گئیں۔
In episode 4, the tension between Atish's behavior and Meher's reaction is very evident. Atish's heart and mind are filled with conflicting thoughts, and he is pressuring Meher to refuse the marriage, while Meher's response adds complexity and hesitation to the entire situation. Alongside this, the playful banter between Zaryab and Mashal lightens the atmosphere, adding a touch of humor to the story.
The contrast between Meher's innocence and Atish's harsh reality is profound, creating a strong tension between them that opens the door to new conflicts. In Atish's perspective, everything is happening because of his mother's wishes, and he is trying to force Meher to follow that path. His intentions and unexpected actions further complicate the positioning of the story.